برصغیر کا شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہوگا جہاں ہلدی استعمال نہ کی جاتی ہو یہ وہ مسئلہ ہے جو ہمارےباورچی خانوں میں لازماً موجود ہوتا ہے. اس کے بغیر بیشتر سالن نامکمل رہتے ہیں۔ مغرب کی جدید تحقیق بھی اب ہلدی کی افادیت تسلیم کرتی نظر آتی ہے۔
Table of Contents
ڈاکٹر سنتوس کا مشورہ
نیویارک کی ایک مشہور ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نے بھی کو اکثروبیشتر ہلدی استعمال کرنے کی سفارش کی ہے جو آپ نے جوڑوں میں درد اور سوزش کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر بھی جب ورزش سپورٹس کے بعد جوڑوں میں دکھن محسوس کرتی ہیں تو اسے کم کرنے کے لیے ہلدی استعمال کرتی ہیں۔
امریکہ میں یہ مسئلہ زیادہ تر بر صغیر کے گھرانوں میں جنوبی ایشیائی ریسٹورنٹ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر سنتوس اپنے مریضوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ اسے ہیلتھ فوڈ سٹورز میں گولیاں یا کیپسول کی صورت میں تلاش کریں۔ ان کی تجویز کردہ یومیہ خوراک ایک ہزار ملی گرام ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ بوتلوں میں محفوظ اس کی خریداری کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ایک اور مرکب پیپرائین بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ جو جسم میں ہلدی کے انجذاب میں معاونت کرتا ہے۔ ڈاکٹر سنتوس نے بتایا کہ بھارت میں جب بھی کسی سالن میں جب بھی ہلدی شامل کی جاتی ہے تو عموما اس کے ساتھ کالی مرچ کا سفوف بھی چھڑکا جاتا ہے۔ کالی مرچ کے ساتھ ہلدی کے استعمال سے ہلدی کے مفید اجزاء امتوں میں جانے کے بجائے براہ راست خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔
جائزہ رپورٹ
2009 میں جرنل آف الٹرنیٹو اینڈ کمپلیمنٹری میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہلدی میں شامل فعال جزو کر کومن اور درد دور کرنے والی ایک معروف دوا آئی برو پروفین کی خصوصیت کا تقابلی جائزہ لینے کے لیے انھیں 107 ایسے مریضوں پر آزمایا گیا تھا جو گھٹنوں کے پٹھوں کے مرض میں مبتلا تھے۔
یہ دیکھا گیا کہ کرکومن سے بھی مریضوں کو درد میں اتنا ہی افاقہ اور چلنے پھرنے میں آرام کا احساس ہوا جتناآئی بیو پروفن کے استعمال سے ہو رہا تھا۔ اس لیے ماہرین یہ سفارش کرتے ہیں کہ اگر مریض کو کسی قسم کی سرجری کروانی ہو تو وہ سرجری سے دو ہفتہ پہلے اس کا استعمال روک دیں۔
علاوہ ازیں کرکومن کو خون پتلا کرنے والی دوسری دعاؤں مثلا ور فرن اور پلیوکس کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے۔ جن لوگوں کے پتے میں پتھری ہے وہ بھی اسے استعمال کرنے سے گریز کریں۔